Law of Inheritance with latest case laws

Law of Inheritance with latest case laws

Law of Inheritance with Latest Case Laws 

2023 YLR 675

وارثت کی تقسیم کے مطابق اگر کوئی مسلمان مرد وفات ہو جائے اور اس کے بچے نہ ہو تو بیوی کو اس کے جائداد میں 1/4 حصہ ملے گا اور 3/4حصہ باقی قانونی وارثہ میں تقسیم کیا جائے گا اور اگر فوت شدہ کا حقیقی بھائی اس کے وفات کے بعد چند ماہ بعد وفات ہو جائے تو 3/4 میں سے 1/8حصہ اس بھائی کے بیوی کو حاصل ہوگا جبکہ 2/3اس کے بیٹیوں کو حاصل ہوگا آگر اس بیٹا نہ ہو تو 1/3 باقی قانونی وارثہ میں تقسیم کیا جائے گا 

When a Muslim man dies leaving behind a wife but no issue, his wife will inherit 1/4th share of his property. The remaining 3/4th will go to the remaining legal heirs. In this proposition one real brother of the deceased was left who died after one month of deceased. He had a wife and three daughters. Now remaining 3/4th property will be divided to his legal heirs. His wife will get share as sharer to the extent of 1/8th of the property, 3/4th and 2/3rd of the remaining property will be given to the daughters (three in number) with equal share. Now if the deceased had a son then the sons of deceased’s stepbrother would not get any share, but in this case since Abdul Rehman had only three daughters and no son, therefore, the remaining 1/3rd will go to the sons of the deceased Muhammad Iqbal

2022 SCMR 1558

There is a clear distinction between (a) cases in which an heir alleges that his/her rights to inheritance have been disregarded and his/her share not mentioned in the inheritance mutation, and (b) those cases in which such an heir sits idly by, does not challenge mutation entries of long standing, or acquiesces, and only comes forward when third party rights in the subject land have been created. To succeed in respect of the latter (b) category cases an heir must demonstrate that he/she was not aware of having been deprived, give cogent reasons for not challenging the property record of long standing, and show complicity between the buyer and the seller (the ostensible owner) or that the buyer knew of such heir’s interest yet proceeded to acquire the land. If these two categories are kept in mind, then the judgments of this court, respectively relied by both sides, which are apparently at variance, become reconcilable.

Law of Inheritance.....

مکمل قانون وراثت اردو میں


(جائیداد کی تقسیم)

(١): جائیداد حقداروں میں متوفی پر واجب الادا قرض دینے اور وصیت کو پورا کرنے کے بعد تقسیم ہوگی

(٢): اگر صاحب جائیداد خود اپنی جائیداد تقسیم کرے تو اس پر واجب ہے کہ پہلے اگر کوئی قرض ہے تو اسے اتارے، جن لوگوں سے اس نے وعدے کیۓ ہیں ان وعدوں کو پورا کرے اور تقسیم کے وقت جو رشتےدار، یتیم اور مسکین حاضر ہوں ان کو بھی کچھ دے

(٣): اگر صاحب جائیداد فوت ہوگیا اور اس نے کوئی وصیت نہیں کی اور نہ ہی جائیداد تقسیم کی تو متوفی پر واجب الادا قرض دینے کے بعد جائیداد صرف حقداروں میں ہی تقسیم ہوگی

جائیداد کی تقسیم میں جائز حقدار

(١): صاحب جائیداد مرد ہو یا عورت انکی جائیداد کی تقسیم میں جائیداد کے حق دار اولاد، والدین، بیوی، اور شوہر ہوتے ہیں

(٢): اگر صاحب جائیداد کے والدین نہیں ہیں تو جائیداد اہل خانہ میں ہی تقسیم ہوگی

(٣): اگر صاحب جائیداد کلالہ ہو اور اسکے سگے بہن بھائی بھی نہ ہوں تو کچھ حصہ سوتیلے بہن بھائی کو جاۓ گا اور باقی نزدیکی رشتے داروں میں جو ضرورت مند ہوں نانا، نانی، دادا، دادی، خالہ، ماموں، پھوپھی، چچا، تایا یا انکی اولاد کو ملے گا

(1): شوہر کی جائیداد میں بیوی یا بیویوں کا حصہ

(١): شوہر کی جائیداد میں بیوی کا حصہ آٹھواں (1/8) یا چوتھائی (1/4) ہے

(٢): اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہونگی تو ان میں وہی حصہ تقسیم ہوجاۓ گا

(٣): اگر شوہر کے اولاد ہے تو جائیداد کا آٹھواں (1/8) حصہ بیوی کا ہے، چھٹا (1/6) حصہ شوہر کے والدین کا ہے اور باقی بچوں کا ہے

(٤): اگر شوہر کے اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہوگا، بیوی کیلئے آٹھواں (1/8) حصہ اور جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ شوہر کے والدین کیلئے ہے

(٥): اگر شوہر کے اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، بیوی کیلئے جائیداد کا آٹھواں (1/8) حصہ ہے اور شوہر کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے

(٦): اگر شوہر کے اولاد نہیں ہے تو بیوی کا حصہ چوتھائی (1/4) ہو گا اور باقی جائیداد شوہر کے والدین کی ہوگی

(٧): اگر کوئی بیوی شوہر کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے فوت ہوجاتی ہے تو اسکا حصہ نہیں نکلے گا

(٨): اگر بیوہ نے شوہر کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے دوسری شادی کرلی تو اسکو حصہ نہیں ملے گا

(٩): اور اگر بیوہ نے حصہ لینے کے بعد شادی کی تو اس سے حصہ واپس نہیں لیا جاۓ گا

(2): بیوی کی جائیداد میں شوہر کا حصہ

(١): بیوی کی جائیداد میں شوہر کا حصہ نصف (1/2) یا چوتھائی (1/4) ہے

(٢): اگر بیوی کے اولاد نہیں ہے تو شوہر کیلئے جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ہے اور نصف (1/2) حصہ بیوی کے ماں باپ کا ہے

(٣): اگر بیوی کے اولاد ہے تو شوہر کیلئے جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے، اور چھٹا (1/6) حصہ بیوی کے ماں باپ کا ہے اور باقی بچوں کا ہے

(٤): اگر بیوی کے اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہوگا، شوہر کیلئے چوتھائی (1/4) حصہ اور باقی جائیداد بیوی کے والدین کیلئے ہے

(٥): اگر بیوی کے اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، شوہر کیلئے جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے اور بیوی کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے

(٦): اگر شوہر، بیوی کے والدین کی طرف سے جائیداد ملنے سے پہلے فوت ہو جاۓ تو اس میں شوہر کا حصہ نہیں نکلے گا

(٧): اگر بیوی اپنے والدین کی جائیداد تقسیم ہونے سے پہلے فوت ہوگئی اور اسکے بچے ہیں تو بیوی کا اپنے والدین کی طرف سے حصہ نکلے گا اور اس میں شوہر کا حصہ چوتھائی (1/4) ہوگا اور باقی بچوں کو ملے گا

(٨): اگر بیوی اپنے والدین کی جائیداد تقسیم ہونے سے پہلے فوت ہوگئی اور اسکے اولاد بھی نہیں ہے تو اسکے شوہر کو حصہ نہیں ملے گا

(3): باپ کی جائیداد میں اولاد کا حصہ

(١): باپ کی جائیداد میں ایک لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے

(٢): باپ کی جائیداد میں پہلے باپ کے والدین یعنی دادا، دادی کا چھٹا (1/6) حصہ، اور باپ کی بیوہ یعنی ماں کا آٹھواں (1/8) حصہ نکالنے کے بعد جائیداد اولاد میں تقسیم ہوگی

(٣): اگر اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں، دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہوگا، آٹھ واں (1/8) حصہ بیوہ ماں کا ہوگا اور چھٹا (1/6) حصہ باپ کے والدین کوملے گا

(٤): اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کیلئے جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ہے، آٹھواں (1/8) حصہ بیوہ ماں کیلئے ہے اور چھٹا (1/6) حصہ باپ کے والدین کیلئے ہے

(٥): اگر باپ کے والدین یعنی دادا یا دادی جائیداد کی تقسیم کے وقت زندہ نہیں ہیں تو انکا حصہ نہیں نکالا جاۓ گا

(٦): اگر کوئی بھائی باپ کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے فوت ہوگیا اور اسکی بیوہ اور بچے ہیں تو بھائی کا حصہ مکمل طریقہ سے نکالا جاۓ گا

(٧): اگر کوئی بہن باپ کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے فوت ہوجاۓ اور اسکا شوہر اور بچے ہوں تو شوہر اور بچوں کو حصہ ملے گا. لیکن اگر بچے نہیں ہیں تو اسکے شوہر کو حصہ نہیں ملے گا.

(4): ماں کی جائیداد میں اولاد کا حصہ

(١): ماں کی جائیداد میں ایک لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے

(٢): جائیداد ماں کے والدین یعنی نانا نانی اور باپ کا حصہ نکالنے کے بعد اولاد میں تقسیم ہوگی.

(٣): اور اگر اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہے، باپ کیلئے چوتھائی (1/4) حصہ اور باقی جائیداد ماں کے والدین کیلئے ہے

(٤): اور اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، باپ کیلئے جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے اور ماں کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے.

(٥): اگر ماں کے والدین تقسیم کے وقت زندہ نہیں ہیں تو انکا حصہ نہیں نکالا جاۓ گا

(٦): اور اگر باپ بھی زندہ نہیں ہے تو باپ کا حصہ بھی نہیں نکالا جاۓ گا ماں کی پوری جائیداد اسکے بچوں میں تقسیم ہوگی

(٧): اگر ماں کے پہلے شوہر سے کوئی اولاد ہے تو وہ بچے بھی ماں کی جائیداد میں برابر کے حصہ دار ہونگے

(5): بیٹے کی جائیداد میں والدین کا حصہ

(١): اگر بیٹے کے اولاد ہو تو والدین کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے

(٢): اگر والدین میں صرف ماں ہو تو چھٹا (1/6) حصہ ماں کو ملے گا اور اگر صرف باپ ہو تو چھٹا (1/6) حصہ باپ کو ملے گا اور اگر دونوں ہوں تو چھٹا (1/6) حصہ دونوں میں برابر تقسیم ہو گا

(٣): اگر بیٹے کے اولاد نہیں ہے لیکن بیوہ ہے اور بیوہ نے شوہر کی جائیداد کے تقسیم ہونے تک شادی نہیں کی تو اس کو جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ملے گا اور باقی جائیداد بیٹے کے والدین کی ہوگی

(٤): اگر بیٹے کی اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہے، بیٹے کی بیوہ کیلئے آٹھواں (1/8) حصہ اور بیٹے کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے

(٥): اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، بیٹے کی بیوہ کیلئے آٹھواں (1/8) حصہ اور بیٹے کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے

(٦): اگر بیٹا رنڈوا ہے اور اسکے کوئی اولاد بھی نہیں ہے تو اسکی جائیداد کے وارث اسکے والدین ہونگے جس میں ماں کیلئ جائیداد کا ایک تہائی (1/3) حصہ ہے

اور دو تہائی (2/3) حصہ باپ کا ہے اور اگر بیٹے کے بہن بھائی بھی ہوں تو اسکی ماں کیلئے چھٹا (1/6) حصہ ہے اور باقی باپ کا ہے.

(6): بیٹی کی جائیداد میں والدین کا حصہ

(١): اگر بیٹی کے اولاد ہے تو والدین کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے

(٢): اگر والدین میں صرف ماں ہو تو چھٹا (1/6) حصہ ماں کو ملے گا اور اگر صرف باپ ہو تو چھٹا (1/6) حصہ باپ کو ملے گا

اور اگر دونوں ہوں تو چھٹا (1/6) حصہ دونوں میں برابر تقسیم ہو گا

(٣): اگر بیٹی کے اولاد نہیں ہے لیکن شوہر ہے تو شوہر کو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ملے گا اور نصف (1/2) جائیداد بیٹ کے والدین کی ہوگی

(٤): اور اگر بیٹی کی اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہے، بیٹی کے شوہر کیلئے ایک چوتہائی (1/4) حصہ اور باقی والدین کا ہے

(٥): اور اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، بیٹی کے شوہر کیلئے چوتہائی (1/4) حصہ اور والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے

(٦): اگر بیٹی بیوہ ہو اور اسکے اولاد بھی نہیں ہے تو جائیداد کے وارث اسکے والدین ہونگے جس میں ماں کیلئے جائیداد کا ایک تہائی (1/3) حصہ ہوگا اور اگر بیٹی کے بہن بھائی ہیں تو ماں کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہوگا اور باقی باپ کو ملے گا

(7): کلالہ:

کلالہ سے مراد ایسے مرد اور عورت جنکی جائیداد کا کوئی وارث نہ ہو یعنی جنکی نہ تو اولاد ہو اور نہ ہی والدین ہوں اور نہ ہی شوہر یا بیوی ہو.

(١): اگر صاحب میراث مرد یا عورت کلالہ ہوں، اسکے سگے بہن بھائی بھی نہ ہوں، اور اگر اسکا صرف ایک سوتیلہ بھائی ہو تو اس کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے،

یا اگر صرف ایک سوتیلی بہن ہو تو اس کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے.

(٢): اگر بہن، بھائی تعداد میں زیادہ ہوں تو وہ سب جائیداد کے ایک تہائی (1/3) حصہ میں شریک ہونگے.

(٣): اور باقی جائیداد قریبی رشتے داروں میں اگر دادا، دادی یا نانا، نانی زندہ ہوں یا چچا، تایا، پھوپھی، خالہ، ماموں میں یا انکی اولادوں میں جو ضرورت مند ہوں ان میں ایسے تقسیم کی جاۓ جو کسی کیلئے ضر رساں نہ ہو.

(8): اگر کلالہ کے سگے بہن بھائی ہوں:

(١): اگر کلالہ مرد یا عورت ہلاک ہوجاۓ، اور اسکی ایک بہن ہو تو اسکی بہن کیلئے جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ہے اور باقی قریبی رشتے داروں میں ضرورت مندوں کیلئے ہے.

(٢): اگر اسکی دو بہنیں ہوں تو ان کیلئے جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ ہے اور باقی قریبی رشتے داروں میں ضرورت مندوں کیلیے ہے

(٣): اگر اسکا ایک بھائی ہو تو ساری جائیداد کا بھائی ہی وارث ہوگا.

(٤): اگر بھائی، بہن مرد اورعورتیں ہوں تو ساری جائیداد انہی میں تقسیم ہوگی مرد کیلئے دوگنا حصہ

اسلامی قانون میں "عاق" کا کوئی تصور نہیں۔

اگر والدین اولاد کو عاق بھی کردیں تب بھی انکی وفات کے عاق کی گئی اولاد بھی وراثت کی حقدار ھو گی۔

Inheritance---Under islamic law, there was no institution of abandonment (aaq) for a disgruntled son/daughter depriving him/her from his/her inheritance.

PLD 2013 Lahore 464

Pronouncement of disinheritance/Aaq Nama did not disentitle a person from his share in inheritance.

2011 YLR 697

وارث مقدمات  دو قسم کے ہوتے ہیں ان دونوں کے درمیان واضح فرق ہے۔  پہلی، ایسی صورتیں جن میں وارث یہ الزام لگاتا ہے کہ وراثت میں اس کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا ہے اور وراثت کی تبدیلی میں اس کے حصہ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، اور دوسری وہ صورتیں جن میں ایسا وارث خاموش بیٹھا ہے، طویل عرصے کے اتپریورتن اندراجات کو چیلنج نہیں کرتا ہے۔  کھڑا ہوتا ہے، یا تسلیم کرتا ہے، اور صرف اس وقت آگے آتا ہے جب موضوع کی زمین میں فریق ثالث کے حقوق بنائے گئے ہوں---دوسری قسم کے مقدمات میں کامیابی کے لیے وارث کو یہ ظاہر کرنا ہوگا کہ اسے محروم کیے جانے کا علم نہیں تھا،  طویل عرصے سے جائیداد کے ریکارڈ کو چیلنج نہ کرنے کی وجوہات، اور خریدار اور بیچنے والے (ظاہر مالک) کے درمیان پیچیدگی ظاہر کریں یا یہ کہ خریدار کو وارث کی دلچسپی کا علم تھا پھر بھی زمین حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھا۔۔

 2022  SCMR  1558  

Inheritance ---Limitation for challenging an Inheritance mutation---Acquiescence by heir---Clear distinction was to be drawn between two sets of cases; first, cases in which an heir alleges that his/her rights to Inheritance have been disregarded and his/her share not mentioned in the Inheritance mutation, and second those cases in which such an heir sits idly by, does not challenge mutation entries of long standing, or acquiesces, and only comes forward when third party rights in the subject land have been created---To succeed in respect of the second category cases an heir must demonstrate that he/she was not aware of having been deprived, give cogent reasons for not challenging the property record of long standing, and show complicity between the buyer and the seller (the ostensible owner) or that the buyer knew of such heir's interest yet proceeded to acquire the land

2022  SCMR  1558     

Ss. 39 & 42---Suit for declaration and cancellation of Inheritance mutation---Acquiescence, principle of---Legal heir allowing third party interest to be created in the property and only challenging the same belatedly---In the present case, courts below did not pay heed to the interest in the subject land created in a third party, that is, a property developer; and, also disregarded the fact that third party interest was created before the legal heir objected to the Inheritance mutation---Significance of the fact that the property developer had created further interest in the subject land by earmarking plots in a Housing Scheme and allotting as many as 444 plots was also not considered---Despite the fact that it would be the allottees of these 444 plots who would suffer the consequences, and do so for something for which they were not responsible---Once the interest of the said 444 came to light they should have been arrayed as defendants in the suit by the plaintiffs, and if the plaintiffs failed to amend the plaint it was incumbent upon the Judge of the Trial Court to do so---Depriving 444 allottees to be of their valuable property rights without them being heard by the Trial and/or Appellate Courts, by the High Court and then by the Supreme Court would be legally indefensible---Courts below disregarded the principle of acquiescence; and the fact of third party interest having been created in the subject land; and that further third parties had acquired proprietary rights in the said land; and, that such interest was acquired in land which was shown in the record of rights of long standing, which remained unchallenged---Courts below also ignored the fact that the legal heir took no action for forty-five years, and that she submitted her application to the revenue authorities only after the creation of the third party interest in the subject land---Plaintiffs, having stood by idly allowed third party interest to be created in the subject land, and could then not complain and claim the said land---Petitions for leave to appeal were converted into appeals and allowed, and consequently, the suit filed by the legal heir was dismissed.

PLD 2021 Balochistan 172

بلوچستان ہائی کورٹ کا وراثت میں خواتین کے حق سے متعلق تاریخی فیصلہ: ’اگر جائیداد خواتین شیئر ہولڈرز کا نام نکال کر منتقل کی تو یہ عمل کالعدم ہو گا‘


 بلوچستان کی ہائی کورٹ نے وراثت میں خواتین کے حق سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ وراثت پہلے تمام شیئر ہولڈرز بشمول خواتین کے نام منتقل کی جائے اور پھر اس کے بعد اس کے انتقال کی کارروائی کی جائے گی۔

عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ ’اگر کوئی بھی جائیداد خواتین شیئر ہولڈرز کا نام چھپا کر یا نکال کر منتقل کی گئی تو انتقال کا سارا عمل کالعدم ہو جائے گا اور سول عدالت سے رجوع کیے بغیر یہ سارا عمل پلٹا دیا جائے۔

بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس کامران ملا خیل پر مشتمل بینچ نے کہا ہے کہ ’خواتین کے حقوق کا تحفظ قرآن مجید میں کیا گیا ہے جس سے انکار کسی صورت نہیں کیا جاسکتا لہذا خواتین اپنے متوفی کی میراث میں حقدار ہیں۔

 عدالت نے یہ حکم بلوچستان کے سینیئر وکیل اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما ساجد ترین ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر صادر کیا۔

اس درخواست میں یہ کہا گیا تھا کہ وراثت میں خواتین کو ان کے حق سے محروم کیا جاتا ہے۔ درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ سرکاری مدعا علیہان کو یہ حکم جاری کیا جائے کہ مووایبل اور ام مووایبل جائیداد میں خواتین کے حصے کو یقینی بنائیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ’فیصلے کی طرف جانے سے پہلے یہ بات ہمیں نوٹ کر لینی چاہیے کہ ہم اکیسویں صدی کا حصہ اور تعلیم یافتہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی خواتین شیئر ہولڈرز کو ان کے حق وراثت سے محروم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘

عدالت نے کہا کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ہر فرد کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اس عمل کی حوصلہ شکنی کریں اور اسے روکیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی خاتون حصہ دار کو اس کے حق سے دستبرداری نامہ، تحفے، دلہن کا تحفہ، نگہداشت الاؤنس، جبر یا کسی بھی ذریعے سے اس کے متوفی وارث کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

عدالت نے قرار دیا کہ اگر ان وجوہات یا کسی بھی طرح خاتون وارث کو وراثت سے محروم کیا گیا تو اس کے انتقال کا سارا عمل کالعدم ہو جائے گا۔

عدالت نے حکم دیا کہ بلوچستان بھر میں کہیں بھی سیٹلمنٹ کا عمل اس وقت تک نہیں کیا جائے گا جب تک یہ یقینی نہ بنایا جائے کہ خاتون وارثوں کے نام اس میں شامل کر لیے گئے ہیں۔ عدالتی فیصلے کے مطابق اگر کسی خاندان میں کوئی خاتون نہیں ہے تو ریونیو حکام متعلقہ تفصیلات میں خاص طور پر اس کا ذکر کریں گے۔

بلوچستان ہائی کورٹ کے بینچ نے کہا کہ سیکریٹری یا سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو اس ضمن میں یہ بات نہ صرف یقینی بنائیں گے بلکہ اپنے ماتحت ریونیو یا سیٹلمنٹ اہل کاروں کو بھی اس کی ہدایت کریں گے کہ کسی بھی علاقے میں سیٹلمنٹ آپریشن شروع کرنے سے قبل مطلوبہ علاقے کی مقامی زبان اور اردو میں کتابچے تقسیم کیے جائیں۔

عدالت نے کہا کہ یہ کتابچے اور ہینڈ بلزگرلز سکولوں، کالجز، ہسپتالوں میں لیڈی کانسٹیبل، لیڈی ٹیچر یا متعلقہ بنیادی صحت مرکز ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی نرس یا میڈ وائف کے ذریعے تقسیم کرائے جائیں۔

عدالت کا کہنا ہے کہ سیٹلمنٹ والے علاقوں کے متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کو پابند بنایا جائے کہ وہ ان علاقوں کی نہ صرف مساجد اور مدارس میں لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے اعلان کروائیں بلکہ سیٹلمنٹ آپریشن والے مقررہ علاقوں کی حدود میں نقاروں کے ذریعے علاقے میں بھی اعلانات کروائیں۔

عدالت نے ڈی جی نادرا کو حکم دیا کہ وہ متعلقہ ضلع و تحصیل کے ریونیو آفس میں رجوع کرنے یا درخواست دینے والوں کے لیے خصوصی ڈیسک قائم کریں جو اس متوفی مورث کا شجرہ نسب فراہم کرے گا جس کی جائیداد تقسیم ہونی ہے، یا پھر سیٹلمنٹ آپریشن کے دوران مرحوم اور اس کی جائیداد میں تمام قانونی وارثین چاہے مرد ہوں یا خواتین، ان کے ناموں کی شمولیت یقینی بنائی جائے گی۔

ڈی جی نادرا کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ وہ رجسٹریشن ٹریک سسٹم (RTS) کے ذریعے قانونی وارث خاتون کی شادی کے بعد اس کے شوہر کے شجرہ نسب میں نام کی شمولیت یقینی بنائے اور خواتین کو ان کے قانونی حق سے کسی بھی طرح محروم رکھنے سے بچانے کے لیے والد کی طرف سے بھی شجرہ نسب معلوم کرے۔

عدالت نے سیکرٹری اور ممبر بورڈ آف ریونیوکو حکم دیا کہ وہ ریونیو آفس میں خصوصی ڈیسک کے قیام تک شجرہ نسب کی فراہمی میں غیر ضروری تاخیر سے بچنے کے لیے ڈی جی نادرا کے مکمل میکنزم کی تشکیل کے لیے اجلاس بلوائیں اور میکنیزم کی تشکیل تک اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے عبوری طریقہ کار وضع کریں۔

عدالت کی جانب سے سکریٹری اور ممبر بورڈ آف ریونیو کو مزید حکم دیا گیا کہ وہ ایک شکایت سیل ایڈیشنل سیکرٹری رینک کے افسر کی نگرانی میں ریونیو آفس میں قائم کریں گے تاکہ سیٹلمنٹ آپریشن و وراثت کے عمل میں غیر ضروری تاخیر سے بچا جا سکے اور اس کے ذریعے غیر قانونی مراعت کے امکان کو بھی رد کیا جا سکے۔

عدالت نے بورڈ آف ریونیو اور اس کے ماتحت عملے کو سختی سے حکم دیا کہ قانونی وارث کو محروم رکھنے کی شکایت موصول ہوئی تو ایسے غلط کام کرنے والوں کے خلاف تعزایرت پاکستان کے 498A کے تحت کیس درج کر کے قانونی کارروائی شروع کی جائے۔ 

فیصلے میں سول عدالتوں کو بھی ہدایت کی گئی کہ وراثت سے متعلق دائر مقدمات جو کہ زیرالتوا ہیں ان کا فیصلہ اس حکم کے موصول ہونے کے تین ماہ کے اندر اندر کر دیا جائے یا پھر التوا کیسز کے لیے یہ مدت چھ ماہ سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اگر کوئی نیا مقدمہ قائم ہوتا ہے تو اسے بطور وراثت کا مقدمہ/اپیل/ رویژن/ پٹیشن درج کیا جائے اور اس کا فیصلہ تین ماہ میں بغیر مزید وقت دیے کر دیا جائے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق اسی طرح ایپلٹ کورٹ اور ری ویژن کورٹ میں زیر التوا تمام درخواستوں کو ترجیحاً ایک ماہ میں نمٹا دیا جائے لیکن تاخیر کی صورت میں درخواست کو دو ماہ سے زیادہ التوا میں نہ رکھا جائے۔ عدالت عالیہ کی انسپکشن ٹیم کا ممبر ان احکامات پر من و عن عمل درآمد کے لیے سرکلر جاری کریں۔

فیصلے میں بلوچستان ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئی بھی شکایت متاثرہ شخص کی جانب سے کسی ریونیو سیٹلمنٹ اہلکار یا کسی بھی غیر سرکاری فرد کی بابت موصول ہوتی ہے کہ اس نے وراثت یا سیٹلمنٹ میں قانونی خاتون وارث کو محروم رکھا ہے تو درخواست ہائی کورٹ میں غور کے لیے پیش کی جائے۔ اور اس پر مناسب حکم دیے جانے کے بعد اسے فورا سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو کی اطلاع اور عملدرآمد کے لیے بھیجا جائے

All the settlement process and mutation entries carried out in the settlement without inclusion of the names of female legal heirs shall stand cancelled and in future any such exclusion or elimination with regard to female shareholder in the legacy of her/their deceased predecessor shall be curbed with iron hands by means of registering criminal cases against the offenders and case in this behalf shall be registered on behalf of the concerned revenue officials instead of complaining women with further directions to the DG NADRA and DG Public Relations, Govt. of Balochistan.

Following directions were issued by the High Court

I. The rights of women are being protected by the Holy Quran, which cannot be denied, thus, they are entitled to be given their/her right from the legacy of their/her deceased predecessor. 

II. No mutation process of inheritance be carried out without transferring the property firstly in the name of all shareholders including female(s) and any property being transfer/mutated by concealing or excluding the name(s) of female(s) shareholder(s), the entire process would be treated as null and void, and liable to be reversed without even approaching the court of civil jurisdiction. 

III. No female shareholder can be deprived from her right on basis of relinquishment/gift deed, bridal gift, maintenance allowance, payment of some cash for any erroneous consideration, force, or for any other means, whatsoever high it may be, other than right of inheritance in the legacy/property of her/their deceased predecessor. In case of any such reason stated hereinabove or leading to deprivation of female shareholder from her right of inheritances , the entire process would stand null and void,  

IV. No Process of settlement is to be carried out anywhere in the province, unless it is assured that the name of female shareholders are provided and are included in the process, and in case, there is no female in the family, the Revenue Authorities must specifically mention the relevant details in this behalf . 

V. The Secretary/Senior Member Board of Revenue shall ensure and direct his sub-ordinate revenue/settlement officials that before starting the settlement operation in any area of the province, the leaflet/handbill duly written in Urdu and local language of the respective area shall be distributed in the girls’ schools/colleges, hospitals and door to door by deputing a lady constable and if not available the lady teacher or midwife/nurse of the respective basic health unit (BHU)/District Head Quarter Hospital (DHQH). 

VI. The respective Deputy Commissioners shall also be directed to arrange the announcement in Urdu and local language of the respective area on loudspeaker in the Masjids/Madrasas, followed by beat of drum in the streets/vicinities, within the precincts of the targeted area(s) of settlement operation.     

VII. The DG NADRA is directed to establish an on call special desk facilities at the revenue office of  the  relevant District/Tehsil for provision of family tree of the deceased, whose property is either likely to be inherited or to be settled during the settlement operation to ensure inclusion of name(s) of female legal heir(s) of any deceased either male or female. 

VIII. The DG NADRA is also directed to ensure that wherever the female legal heir after getting marriage is or has been included in the family  tree of her husband, through registration track system (RTS), the origin of her father’s family shall also be ascertained to avoid any deprivation of legal right. 

IX. The Secretary, Member Board of Revenue is directed to convene a meeting with the DG NADRA for evolving a comprehensive mechanism for avoiding unnecessary delay for provision of family tree of the deceased and till establishment of special facility at the revenue offices, an interim procedure shall be devised to achieve the objects of this judgment.  

X. The Secretary, Member Board of Revenue is further directed to constitute a complaint cell at the Revenue Office(s) supervised by an officer not below the rank of Additional Secretary, to avoid any unnecessary delay in the process of inheritance as well as in the settlement operation and also to eradicate the possibility of illegal gratification. 

XI. The Member Board of Revenue and his all sub-ordinate officials are strictly directed that in case of any complaint with regard to deprivation of any female legal heir(s) a legal action shall be initiated against the wrong doers by registering a criminal case under the provision of Section 498-A PPC. While for this purpose no female shall be compelled either to withdraw from her claim or to force her to initiate a criminal proceeding on her own, rather, it would be the duty of the concerned revenue official to lodge a criminal case. 

XII. All civil suits relating to inheritance pending before the Civil Court are directed to be decided within three months from receipt of this judgment and such period in no case shall exceed six months, from today, whereas, if any suit is newly instituted, the same be registered as Inheritance Suit/appeal/revision/petition and be decided within three months without extension of further time. All the appeals and revisions pending before the Appellate Court and Revisional Courts are directed to be decided within one month preferably, but not later than two (02) months. The Member Inspection Team of this court shall circulate a circular and ensure that these directions are followed in letter and spirit within stipulated time. 

XIII. The Registrar of this court is directed that if any complaint is received by any aggrieved person against any revenue/settlement official or by any private individual with regard to deprivation of female legal heir either in case of inheritance or settlement operation, the same be immediately placed before us for our perusal in chamber and after passing an appropriate direction same shall immediately be transmitted to Senior Member Board of Revenue for information and compliance.

 XIV. Any application/complaint filed with regard to issue decided in this judgment shall be treated as an execution application, which after entering as a Civil Miscellaneous Application shall be proceeded accordingly either under the Code of Civil Procedure, 1908, (CPC) or The Contempt of Court Act 2003, and as a criminal complaint under Section 200 Cr.P.C.

Previous Post Next Post